اُسوہ حسنہ کی تعریف
اللہ تعالی کا قانون ہے کے جب باطل سر اٹھاتا ہے تو اسے کچلنے کے لیے حق کی طاقت سامنے آتی ہے۔جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھجا گیا۔جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو اس کے گمنڈ کو خاک میں ملانے کے لیے خدا نے حضرت موسی علی السلام کو دنیا میں بھجا۔
ٹھیک اسی طرح عرب میں جہالت کا بازار گرم تھا۔ہر طرف جھوٹ اور باطل تھا۔ظلم و ستم عام تھا۔لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوے تھے۔قتل و غارت عام تھی ہر طرف چوری چکاری، دھوکے بازی کا راج تھا۔بیٹی جیسی نعمت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔اگر لڑائی ہو جاتی تو جھگڑا صدیوں تک جاری رہتا تھا۔
کہیں تھا مویشی چرانے پر جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پر جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
پھر ان کو ہدایت پر لانے کے لیے ایک بچے نے جنم لیا۔یہ ربیع اول کا مہینہ تھا۔رات کا اندھرا چھٹا اور نبیوں کے سردار پیدا ہوے جنہوں نے بڑے ہو کر دنیا میں حق قائم کیا اور پوری دنیا میں علم کی روشنی پھلا دی۔
یہ رحمت صرف عرب والوں کے لیے نہیں تھی بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھی ۔آپ ﷺ کی آمد سے پوری کائنات چمک اٹھی۔انسانیت کے لیے یہ وقت بڑا رحمت کا تھا۔
اسوحسنہ کا مطلب
اسوت کے معنی ہیں نمونہ اور حسنہ کا مطلب ہے طریقہ ۔اسوت حسنہ کا مطلب ہے بہترین نمونہ یا خوبصورت طریقہ ۔اس سے مراد رسول پاکﷺ کی سیرت طیبہ ہے۔
آپ ﷺ کی زندگی ان کا چلنا ،ان کا رکنا، ان کا اٹھنا، ان کا بیھٹنا، ان کا کھانا ،ان کا پینا ،ان کا پہننا ،ان کا اتارنا ، ان کا سونا، ان کا جاگنا ،غرضیکہ کے آپﷺ کی زندگی کا ہر قول و فعل دنیا کے تمام انسانوں ، معاشروں اور ملکوں کے لیے نمونہ عمل اور رہ نجات ہے۔آپﷺ کی ذات ایسا نورو ہدایت، آپﷺ کی زندگی ایسا روشن چراغ اور آپﷺ کی سیرت ایسا جگماگاتا آفتاب ومہتاب ہے جس سے زندگی کی راہیں روشن اور ظلمتیں کا فور ہوتی ہے۔آپ ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ انسانوں کی مکمل رہنمائی کا ضامن ہے۔آپﷺ کے قول وافعال، سیرت وکردار اور اخلاق حسنہ روشنی کے ایسے مینار ہیں جن سے انسانیت ہمیشہ کے لیے راہ ھدایت حاصل کر سکتی ہے۔معیشت ومعاشرت ،ساست وتمدن ، ارشاد وتبلیغ ، صلح وجنگ ، رشدو ھدایت ،دفاع و حملہ، امور وداخلہ ، عدل و انصاف غرض ہر معاملے میں آپ ﷺ کی زندگی اسوہ حسنہ ہے۔
آپ ﷺکی سیرت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ
آپ ﷺ نے جو تعلیم دی ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کر کے دیکھایا۔آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ ڈدرحقیقت قرآن کی عملی تفسیر ہے۔آپ ﷺ نے لوگوں کو خدا کی یاد اور محبت کرنے ، نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے ، زہد وقناعت اختیار کرنے ، دین پر استقامت دیکھانے ، غریبوں اور مسکینوں کی اعانت کرنے ، بھوکوں کو کھانا کھلانے، عفوودرگزر اور صبر وشکر کرنے کی تلقین کی سب سے پہلے ان پر بطریق احسن خود عمل کر کے دکھایا۔
پوری انسانی تاریخ میں کوئی نبی یا رسول ایسا نہیں آیا جس میں قابلیت اور جامیعت کے اعتبار سے یہ تمام صفات مکمل طور ور موجود ہوں۔اگر کوئی ہستی ان صفات میں بدرجہ اتم ، مکمل اور کامل ہے تو وہ صرف اور صرف حضور ﷺ ہے۔یہ دعوی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ اسوہ حسنہ اور نمونہ کامل جیسے جلیل ترین منصب کے اہل ہیں اور آپﷺ کی زندگی کو مثالی نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔انسان کامل کا خطاب صرف
آپ ﷺ کو سزا دار ہے۔صرف آپ ﷺ کی زندگی کو مشعل بنا کر ہر دور کے ایوان حیات کو منور کیا جا سکتا ہے۔
رخ مصطفیٰﷺ ہے وہ آئینہ کے اب دوسرا آئینہ
نا ہماری بزم خیال میں نہ دکان میں آئینہ ساز میں
آپ ﷺ ہمیشہ عاجزی وانکساری سے رہتے اور رات بھر اپنی امت کے لیے خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگتے۔
آپﷺ نے چھوٹوں سے محبّت وشفقت کا درس دیا اور فرمایا کے
جو شخص ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔
پس مسلمانوں کی کامیابی اور آخروی نجات کا دارومدار اسی بات پر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو حضور ﷺ کے ارشادات اور رہنمائی کے مطابق ڈھال لیں اسی میں انسانیت کے فلاح مضمر ہے۔اس کائنات کا ظہور بھی آپﷺ کی وجہ سے ہے۔حدیث قدسی ہے
اگر آپﷺ نہ ہوتے تو کائنات کی تخلیق نہ کرتا اور نہ ہی اپنی ربوبیت ظاہر کرتا۔
اگر آج کے مسلمان اؤج ثریا پر متمکن ہونا چاہتے ہیں تو انھیں چاہے کہ وہ حضور ﷺ کی اکمل ذات کی تقلید کریں
کی محمّد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانی محمّد ﷺ
ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا
رسولِ رحمتﷺ کا اُسوہ حسنہ
ڈاکٹر آسی خرم جہانگیری
نبی کریم ﷺ کی ذاتِ مقدسہ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا: وہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ ۔٭…اﷲ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں سے رسولﷺ کو بھیجا۔٭…تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب آئی۔ ٭…اے پیا ر ے نبی ﷺ! ہم نے آپﷺ کو شاہد بنا کر بھیجا۔
قرآن پاک کے عنوانات کو دیکھیے کہ حضور ﷺ کے آنے ،بھیجے جانے ،مبعوث ہونے ،جلوہ گر ہونے کے لیے کیسے کیسے عنوانات اﷲتعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمائے ہیں ۔ان سے حضور ﷺکے تشریف لانے کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ایک مقام پرفرمایا گیا :نبی کریم ﷺ کی ذاتِ مقدسہ تمام کائنات کے لیے رحمت ہے اور حضور ﷺ تمام عالمین کے لیے ہدایت و رحمت بن کر تشریف لائے۔ حضور ﷺکاارشادہے’’مجھے حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیاگیا۔‘‘
محسن انسانیتﷺ نے ان اخلا قِ فاضلہ پر بطریق احسن عمل کرکے دکھایا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر محمدرسول اللہ کے بجائے محمدبن عبداللہ کے لکھے جانے پر راضی ہوجانا، امیر حمزہ ؓکے قاتل وحشی کو معاف کردینا۔ ہندہ کو عفو ودرگزر سے نوازنا،اپنے جانی دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کو نادم ہونے، بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے پر کمال شفقت سے پیش آنا، مشرکین کی سنگ باری سے زخمی ہونے پر بددعا کے بجائے خدایا میری قوم کو ہدایت عطا فرما کہ وہ جانتے نہیں، کے الفاظ سے ان کے حق میں دعا کرنا،جنگ میں بوڑھوں، عورتوں اور بچوں سے نیک سلوک کی تلقین کرنا،بیوگان اور یتامیٰ اور مساکین کا خیال رکھنا،مزدوروں کی مزدوری ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکرنے کی تاکید فرمانا، آپﷺ کے خلق عظیم کی وہ روشن مثالیں ہیں، جن کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے قاصر ہے۔
نبی آخرا لزماں ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہرایک کے لیے ایسا روشن نمونہ ہے کہ جس پر چل کر اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکتی اور انسان دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔نمونہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے سامنے رکھ کر دوسری چیز کو اُس کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ بہترین نمونہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کو اپنے سامنے رکھ کر اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا جائے اور ہر معاملے میں آپ ﷺکی اطاعت و فرماںبرداری کی جائے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’حقیقت میں تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ (کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے ،ہر اس شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب، آیت:۲۱) قرآن کریم کی اس آیت میں وجہ تخلیق کائنات ،فخر موجودات محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپ ﷺ کے بے مثال اسوۂ حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دیا گیاہے۔
ہر اس شخص کے لئے جسے اس بات کا احساس ہو کہ ایک دن میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گا، اس سے ملاقات کروں گا اور وہ مجھ سے میرے اعمال کی باز پُرس فرمائے گا، میرا حساب و کتاب لے گا اور یہ احسا س بھی اسی شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا اوراسے خوب یاد کرتا ہو۔ آیت میں عموم ہے، یعنی تم سب کے لیے،چاہے تمہارا تعلق انسانیت کے کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو،امیر ہو یا غریب،بادشاہ ہو یا فقیر ، امام ہو یامقتدی ،منصف ہو یا مدّعی ،خطیب ہو یا طبیب، معلّم ہو یا متعلّم،روزے دار ہو یا شب بیدار، مجاہد ہو یا سپہ سالار،تاجر ہو یا خریدار، نوجوان ہو یا بزرگ،بچہ ہو یا یتیم، شوہر ہو یا باپ۔
بہرحال تاریخ گواہ ہے کہ جب تک امتِ محمدیہ نے حضور اقدس ﷺکی سنت و سیرت کواپنا آئیڈیل بنائے رکھا، کامیابی وکامرانی اورعزت و وجاہت کی منزلیںطے کرتی چلی گئی اور جہاں حضور اقدس ﷺ کی سنت و سیرت سے اعراض کیا،غیروں کی نقالی اور مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے پستی اور تنزلی کی گھاٹیوں میں جاپڑی اور اپنا سارا رعب و دبدبہ گنوا بیٹھی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو غیروں کی نقّالی و مشابہت سے بچا کر اپنے پیارے حبیب ﷺ کی سنت وسیرت کو اپنانے، آپﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
No comments:
Post a Comment