7 Days 6 Night Tour Gilgit Baltistan
Swat Riders Club Swat
ایک خواب سے ایک حقیقت تک
سات دن اور 6 راتوں پر مشتمل طویل سفر
میرے ایک دوست کی بات کہتے ہیں ۔ جب اپ اتنے لمبے سفر نکلنے کی کوشش کرتے ہو ۔ تو دل بے ترتیب دھڑکتا ہے ۔ کہ جاو کہ نہیں ۔ پھر جب نکلتے ہو ۔ تو بس جیسے کیسی اور دنیا کے ہو جاتے ہو۔
پہلا دن ۔
خوازخیلہ میں تمام دوست اکٹھا ہوئے ۔ سفر خیر کی دعا کی گئ۔ ٹیم کی سربراہی ارشد فوز چیرمین ایس ار سی کر رہے تھے ۔ ٹور امیر حلیم صاحب تھے ، جبکہ پہلے دن کے امیر انجنیِر افتخار مقرر ہوئے
خوازخیلہ سے چلاس کے درمیان کب کہاں روکے
داسو ڈیم کے مقام پر 3 گھنٹے طویل روڈ کھولنے کا انتظار میں دوستوں کے سیر سپاٹے
داسو ڈیم کے مقام پر 3 گھنٹے طویل روڈ کھولنے کا انتظار
مغرب کی نماز کے وقت ثمر نالا تک پہنچ سکے
خوازخیلہ سے صبح 9 یا 9.30بجے روانگی ہوئی اور تقریبا شام 8بجے کے قریب 0 پوائینٹ چیلاس پہنچ گئے
بابو سر چوک
عطا آباد جھیل وادئ ہنزہ، صوبہ گلگت بلتستان، پاکستان میں واقع ہے۔ یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں 2010ء میں وجود میں آئی۔ یہ جھیل عطا آباد نامی گاؤں کے نزدیک ہے جو کریم آباد سے 22 کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے۔
یہ واقعہ 4 جنوری 2010ء میں پیش آیا جب زمین سرکنے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے اور شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ اس میں دب گیا اور دریائے ہنزہ کا بہاؤ 5 ماہ کے لیے رک گیا۔ جھیل کے بننے اور اس کی سطح بلند ہونے سے کم از کم 6000 افراد بے گھر ہوئے جبکہ 25000 مزید افراد متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ شاہرائے قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھی اس جھیل میں ڈوب گیا۔ جون 2010ء کے پہلے ہفتے میں اس جھیل کی لمبائی 21 کلومیٹر جبکہ گہرائی 100 میٹر سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس وقت پانی زمین کے سرکنے سے بننے والے عارضی بند کے اوپر سے ہو کر بہنے لگا۔ تاہم اس وقت تک ششکٹ کا نچلا حصہ اور گلمت کے کچھ حصے زیر آب آ چکے تھے۔ گوجال کا سب ڈویژن سیلاب سے سب سے زیادہ متائثر ہوا جہاں 170 سے زیادہ گھر اور 120 سے زیادہ دوکانیں سیلاب کا شکار ہوئیں۔ شاہراہ قراقرم کے بند ہونے سے خوراک اور دیگر ضروری ساز و سامان کی قلت پیدا ہو گئی۔ 4 جون 2010ء کو جھیل سے نکلنے والے پانی کی مقدار 3700 مکعب فٹ فی سیکنڈ ہو چکی تھی۔
عطاآباد سے ست رنگی جھیل کے طرف روانگی
نلتروادی کی دوسری اہمیت سکی کھیل کی بدولت ہے۔ سردیوں میں نلترمیں خاصی برفباری ہوجاتی ہے، جہاں پر پاکستان ایئرفورس کی جانب سے ہرسال سکی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس کھیل سے لطف اندوزہونے کے لئے ملکی وغیرملکی شائقین کی ایک کثیرتعداد ٹھٹھرتی سردی کے باوجود نلتر کا رخ کرلیتے ہیں اور سکی سے خوب لطف اٹھاتے ہیں۔
نلترکا سکی چیئرلفٹ اگرچہ انتہائی خطرناک ہے، مگراسی چیئرلفٹ پر پریکٹس کرتے کرتے نلتر ہی کے چند مقامی نوجوانوں نے عالمی سطح پر منعقد ہونے والے سکی چمپئن شپس میں کمال کرتب دکھا کر پاکستان اور گلگت بلتستان کا نام فخر سے بلند کر دیا، جن میں ضلع غذر سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں آمنہ ولی اور عارفہ ولی کا نام بھی شامل ہیں۔
گلگت سے نلتردو اطراف سے راستے جاتے ہیں ، جو نومل میں جاکے آپس میں ملتے ہیں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے بائیں جانب چھلمش داس سے نومل جانے والی سڑک انتہائی خستہ حالی کا شکار ہونے کے سبب زیادہ تر سیاح نلتر جانے کے لئے دنیور سائیڈ سے براستہ شاہراہ قراقرم نومل جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نومل گاؤں کے اختتام پر واقع پولیس چوکی کراس کرنے کے بعد نلتر کی حدود شروع ہو جاتی ہے، جس کی آخری سرحد گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کے نالہ جات سے ملتی ہے۔
ہنزا مین روڈ پر واقع ہوٹل والے کے طرف شاتوت کا تحفہ
ریاست نگر اور ہنزہ سے برف کا تاج محل آپ کے قدم روکتا ہے اور ایک کشش گردن میں بل ڈال دیتی ہے، وہ تاج محل راکا پوشی کا برف معبد ہے۔
گلگت سے خنجراب جاتے ہوئے مناپن نالے کے قریب دائیں جانب ایک چھوٹی سڑک قراقرم سے جدا ہوتی ہے اور مناپن کی طرف لیے جاتی ہے۔
راکا پوشی بیس کیمپ اور برف کے تاج محل کی قربت کے حصول کے لیے یہی راستہ شارع عام ہے۔
راکا پوشی 25550 فٹ یعنی 7788 میٹر بلند چوٹی ہے۔ سلسلہ قراقرم میں واقع یہ برف معبد 12ویں نمبر پر اور دنیا میں 27ویں نمبر پر بلند چوٹی ہے۔
اسے سب سے پہلے 1958 میں دو برطانوی کوہ پیما مائیک بینکس اور ٹام پیٹی نے سر کیا۔
قراقرم کے سینے میں آباد پاکستان کا وہ علاقہ ہے جسے قدرت نے عجائبات و مناظرکا ایک اچھوتا امتزاج عطا کیا ہے۔
راکا پوشی کی ایک اور خاصیت یہ ہے کے اکثر اوقات شدید دھند میں لپٹی رہتی ہے اور اپنے ساتھ بہت بڑے علاقے کو بھی دھند کے غلاف میں لپیٹ دیتی ہے۔
اسی وجہ سے اسے ’مدر آف مِسٹ‘ یعنی دھند کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس دھند کی وجہ سے سیاح راکاپوشی کی ایک مکمل جھلک دیکھنے کے لیے کئی کئی روزانتظار بھی کرتے ہیں
تفصیلات کے مطابق ضلع ہنرہ کی پہاڑی پاسو کونزکی اہم چوٹی پہلی بار سر کرلی گئی ہے، 6 ہزار 106 میٹر بلند یہ چوٹی اب تک کسی نے سر نہیں کی تھی، چوٹی کو شمشال کے نوجوان مہم جووں کی 12 رکنی ٹیم نے تاریخ میں پہلی بار سرکیا۔ مقامی کوہ پیماوں کی 12 رکنی ٹیم میں دو لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ٹیم نے پہلے اس چوٹی کو یوم آزادی پاکستان پر سرکرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، تاہم موسمی پیش گوئی کے باعث ٹیم کویوم آزادی سے ایک روز قبل ہی چوٹی سرکرنا پڑ گئی۔
مارخور جنگلی بکرے کی ایک قسم کا چرندہ ہے
مارخور جس کو پاکستان کے قومی جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہ جنگلی بکرے کی ایک قسم کا چرندہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر پہاڑی جانور ہے جو عموماً 600 سے3600میٹر تک کی بلندیوں پر پایا جاتا ہے۔ اس جانور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ ان 72جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے 1976ء میں جاری کردہ سکوں پر کندہ ہیں۔
ابتدائی تعارف : جنگلی بکروں سے ملتا جلتا یہ جانور جس کے لفظی معنی فارسی میں''سانپ کھانے والا‘‘ کے ہیں۔ کیونکہ فارسی میں ''مار‘‘ سانپ کو کہتے ہیں جبکہ ''خور‘‘ کے معنی کھانے والا کے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق مارخور چونکہ ایک چرند ہے اس لئے سانپ یا جانور کھانا اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ جبکہ اس جانور بارے صدیوں سے سنی جانے والی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو اپنے سینگوں کے ذریعے مار کر چبا جاتا ہے اور اس کی جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جو جھاگ نکلتی ہے وہ نیچے گرتے ہی خشک اور سخت ہو جاتی ہے۔ اس سے منسلک کہاوت یہ بھی ہے کہ یہ خشک جھاگ سانپ کے کاٹے کا مؤثر علاج تصور ہوتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کے نام کی مناسبت اس کے سینگوں کی وجہ سے بھی ہے جو سانپ کی طرح بل دار ہوتے ہیں۔
مارخور عمومی طور پر سیاہی مائل بھورے رنگ میں پائے جاتے ہیں جبکہ ان کی ٹانگوں کا نچلا حصہ سفید اور سیاہی مائل ہوتا ہے۔ نر مارخور کے سینگ لگ بھگ 65 انچ جبکہ مادہ کے سینگ 10انچ لمبے ہوتے ہیں۔ مارخور کا قد عام طور پر 26 انچ سے لیکر 45 انچ تک ہوتا ہے، اس کی لمبائی 52 انچ سے لیکر 72انچ تک ہوتی ہے۔
خوراک اور عادات : مارخور چونکہ بنیادی طور پر ایک چرند ہے اس لئے گھاس ہی اس کی بنیادی غذا ہے۔ یہ ویسے تو مختلف قسم کی جنگلی بوٹیاں کھا لیتا ہے لیکن صنوبر، شاہ بلوط، دفران اس کی مرغوب غذائیں ہیں۔ اس کی غذا کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہ سردیوں میں تو درختوں کے پتے کھاتا ہے جبکہ گرمیوں اور بہار کے موسم یہ گھاس کو پسند کرتا ہے۔ مارخور کی عادات دوسرے جانوروں سے قدرے مختلف ہوتی ہیں۔ نر مارخور جب پیٹ بھر کر خوراک کھا لیتے ہیں تو یہ آپس میں اپنے سینگ پھنسا کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مادہ جانور ان سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ مادہ مارخوروں میں یہ خصلت بہت مشترک ہے کہ یہ اپنے مادہ بچوں کے ساتھ ریوڑ کی شکل میں رہنا پسند کرتی ہیں جبکہ نر مارخور ان سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور وہ عموماً اکیلا رہنا پسند کرتے ہیں۔
مار خور پالتو بکروں کا جد امجد؟:اکثر شکاریوں کو اس بحث میں اُلجھتے دیکھا گیا ہے کہ مارخور کے جد امجد کا تعلق کہاں سے ہے۔ تاریخ کی کتب سے جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق یہ جنگلی جانور صدیوں سے پہاڑوں اور جنگلوں میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ پالتو اور گھریلو بکرے دراصل مارخور خاندان اور پہاڑی بکروں کی آپس میں افزائش نسل کا نتیجہ ہیں۔ بعض مصنفین نے تو چند مصری نسل کے بکروں کو بھی ان کے سینگوں کی مشابہت کے باعث مارخور کے خاندان کے اجداد سے ہی قرار دیا ہے۔ چترال، لداخ اور تبت وغیرہ میں پائی جانے والی نایاب نسل ''پشمینہ‘‘ بکریوں کا تعلق بھی بعض روایات کے مطابق مارخور خاندان سے ہی جوڑا جاتا ہے۔ سسلی میں بکریوں کی معروف نسل ''گرگنٹانہ‘‘ اور آئرلینڈ میں بکریوں کی نسل ''ہلبری‘‘ جو عادات و اطوار اور شکل میں مارخور سے بہت مشابہت رکھتی ہیں ان کے بارے بھی غالب گمان یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق مارخور کے خاندان سے ہی جا ملتا ہے۔
اقسام :دنیا بھر میں اس کی پانچ مستند اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے تین پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کو استور، سلیمان اور کشمیر مارخور کے نام سے جانا جاتا ہے۔'' استور مارخور‘‘یہ پاکستان میں چترال، گلگت بلتستان، کوہستان، وادی ہنزہ، ودای جہلم میں بھی پایا جاتا ہے۔ ''سلیمان مارخور‘‘ یہ پاکستان کے سلسلہ کوہ سلیمان میں پایا جاتا ہے۔ ''کشمیر مارخور‘‘ یہ چترال کے علاقوں میں نظر آتا ہے۔
نسل کو لاحق خطرات:مارخور کے بارے عالمی تنظیم ''بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت‘‘ (آئی یو سی این) نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ مارخور کی نسل تیزی سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔اگر بروقت مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو مارخور جس کا وجود جو معدومیت کے قریب ہے ناپید ہو جائے گا۔ اس تنظیم نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق اب اس نایاب جانور کی تعداد محض چند ہزاروں تک محدود ہو چکی ہے۔
کم ہوتی نسل کی وجوہات :محکمہ جنگلی حیات کے ایک سروے کے مطابق2019ء میں ملک میں مارخور کے سب سے بڑے مرکز نیشنل گول پارک چترال میں اس قومی جانور کی تعداد 2800 تھی جبکہ 2020ء میں یہ تعداد کم ہو کر 2ہزارتک رہ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق کم ہوتی تعداد کی وجوہات میں نیشنل پارک میں حفاظت پر مامور وہ نگہبان ہیں جو فنڈز میں کمی کے باعث تنخواہیں نہ ملنے پر خود ہی ان جانوروں کا غیر قانونی شکار کرنے لگ گئے ہیں۔
گول نیشنل پارک چترال میں مارخور کی کم ہوتی نسل بارے علاقے کے عمائدین کے بقول یہاں سے ایک معقول تعداد ان جانوروں کی ہر سال افغانستان ہجرت کر جاتی ہے۔مارخور کے تناسب کے لحاظ سے گول نیشنل پارک کا رقبہ کم ہے۔ ورلڈ بنک کے بنائے گئے منصوبے کے مطابق گول نیشنل پارک میں مارخوروں کی تعداد 425 ہونی چاہئے۔
ان کی کم ہوتی نسل کی بڑی وجہ ان کا غیر قانونی شکار بھی ہے کیونکہ مارخور کا گوشت جو ذائقہ کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اپنی مانگ کے سبب یہ اس وقت مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے سینگ جو نمائشی اور آرائشی سامان بنانے کے کام آتے ہیں اس وقت بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی بہت مانگ ہے۔ یہی حال اس کی کھال کا ہے بین الاقوامی مارکیٹ میں جس کی خاصی مانگ ہے۔
خاورنیازی لاہور میں مقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں
شاہراہ قراقرم (قومی شاہراہ 35 یا مختصراً این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔
شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔
شاہراہ قراقرم کا افتتاح[ترمیم]
شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لیے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑ گیا تھا۔ جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہو گیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا
رات کے قیام کیلے بوریت جھیل واپسی اور کیمپنگ پاک چین بارڈر دنیا کاواحد بارڈر ہے جو سطح سمندر سے 16200 فٹ کے بلندی پر واقع ہے ۔worlds highest ATM in Pakistan
بوریت ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں پر ایک خوبصورت اور بڑی جھیل بھی ہے، جس میں موسم سرما کی دوران وسط ایشیااور سائیبریا سے اڑ کر آنے والے پرندے اترتے ہیں۔ بوریت کی آباد جھیل کے دو اطراف میں بستی ہے۔ اس کے جنوب اور شمال کی طرف دو بڑے گلیشر ہیں، جن کے پانی سے یہ گاؤں سیراب ہوتا ہے۔ .
وادی ہنزہ کے اوپری حصے میں گوجال کے قریب ایک گاﺅں حسینی میں واقع اس جھیل کو خوبصورت ترین کہا جاسکتا ہے مگر اس کے اوپر موجود لوگوں کے گزرنے کے لیے حسینی نامی پل اتنا ہی خطرناک ہے، شہر گلگت سے ایک راستہ گلیشیئر عبور کر کے جھیل بوریتھ پہنچتا ہے۔ جبکہ اس وقت اپ گاڑی کے ذریعہ بہ اسانی جھیل تک پہنچ سکتے ہیں ۔
بوریت جھیل دراصل کے پانی بارے مختلف ارا ہے کچھ کا خیال ہے کہ برفانی گلیشیٔرز کے زیر زمین پانی سے ہی وجود میں آئی ہے اور یہ وسط ایشیاء سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں اور فطرت سے محبت کرنے والے افراد کے لیے ایک زبردست جگہ ہے۔
"بوریت جھیل"
ہنزہ کا حسینی پل ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کامرکز
تتا پانی
دنیا کے خطرناک ترین پلوں میں سے ایک حسینی برج ہنزہ کی وادی گوجال میں واقع ہے ۔ حسینی نامی گاؤں میں واقع یہ پُل دنیا کے 10خطرناک ترین پلوں میں دوسرے نمبر پر ہے ۔
ہوا میں معلق پُل انگریزوں کے دور میں گوجال کے گاوں ششکٹ میں تعمیر کیا گیا تھا۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے وقت اس معلق پل کو 1968میں ششکٹ سے میر آف ہنزہ کے حکم پر حسینی گاوں میں منتقل کردیا گیا، تاکہ دریا کے دوسری جا نب واقع زرآباد نامی گاوں تک رسائی ممکن ہو سکے۔
حسینی کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پل کی تعمیر سے پہلے وہ 20کلو میٹر دور دوسرے گاوں جاکر اور خطرناک پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچتے تھے
مکینوں نے 1968میں اس وقت کے ہنزہ کے حکمران کو درخواست دی کہ یہاں قریب ہی ایک معلق پُل تعمیر کی جائے۔تاکہ لوگ اپنی زرعی اجناس کی ترسیل ممکن بنا سکیں ۔ اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے ہنزہ کے اس وقت کے حکمران میر محمد جمال خان نے یہ پُل تعمیر کروایا۔
دنیا کے اس خطرناک پل کی لمبائی 660فٹ اوراس میں 472 لکڑی کے تختے لگے ہیں۔ سطح دریا سے اس کی کم از کم اونچائی پچاس فٹ اور زیادہ زیادہ سے زیادہ اونچائی 100 فٹ کے لگ بھگ ہے۔
دریائے ہنزہ پر تعمیر شدہ یہ پل آج کل ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے توجہ کامرکز بھی گیا۔
سوات رائیڈر ز کے ممبرز مارخور کی تالاش اور تاریخ
مارخور جنگلی بکرے کی ایک قسم کا چرندہ ہے
محل وقوع[ترمیم]
پاکستان میں گلگت بلتستان، ضلع چترال، وادی کالاش اور وادئ ہنزا سمیت دیگر شمالی علاقوں کے علاوہ وادی نیلم کے بالائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مارخور بھارت ‘افغانستان ،ازبکستان،تاجکستان اور کشمیر کے کچھ علاقوں ميں بھی پايا جاتا ہے۔ قدرت اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی عالمی تنظیم بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت کے مطابق اس نوع کو ان جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کا وجود خطرے میں ہے۔ بالغ مارخور تعداد میں 2500 سے بھی کم ہیں۔ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔
لفظ ‘مارخور’ بنیادی طور پر دو الفاظ کو جوڑ کر بنایا گیا ہے جس کے لیے ایک لفظ کو فارسی زبان سے اور دوسرے کو پشتو زبان سے لیا گیا ہے، لفظ مار کا معنی ‘سانپ’ اور خور کا معنی ‘کھانے والا’ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سانپ ایک زہریلا اور خطرناک جانور ہے اور انسان کا دشمن سمجھا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی سمجھیں کہ ‘دُشمن کو کھا جانے والا’۔
مارخور کی یہ نسل زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقہ جات جیسے کہ چترال، غذر اور ہنزہ کے ٹھنڈے علاقہ جات اور اُنچے خطرناک پہاڑوں میں پائی جاتی ہے۔
:پانچویں رات
No comments:
Post a Comment